غالب کی عظمت (The Greatness of Ghalib)

in Article
Published on:

Dr. Ale Ahmad Suroor

Professor Suroor (1912–2002), poet and critic, was Head of the Department of Urdu, Aligarh Muslim University, and Director, Iqbal Institute at the University of Kashmir.

 

میں ادارۂ کلپنا کا ممنون ہوں کہ اس نے غالب پر ایک سمینار کے افتتاح کے لیے مجھے یاد کیا۔ کلپنا ہندی کا ادارہ ہے اور اردو کے ایک عظیم شاعر کی صد سالہ برسی کے موقع پر ایک ایسے اجتماع کو ضروری سمجھتا ہے جس میں مختلف زبانوں کے نمائندے اس عظیم شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کریں اور اس طرح یہ واضح کردیں کہ ہر زبان کا ادبی سرمایہ صرف اس زبان کے بولنے والوں کی ملکیت نہیں ہوتا۔ وہ دوسری زبانوں کے بولنے والوں کو بھی عزیز ہوتا ہے۔ یہ بڑا مبارک قدم ہے اور اسے سبھی کو سراہنا چاہیے۔ ساہتیہ اکادمی کے قیام کے وقت ڈاکٹر رادھا کرشنن نے کہا تھا ‘‘ہندوستانی ادب اگرچہ بہت سی زبانوں میں لکھا جاتا ہے مگر اس میں ایک وحدت ہے’’ ہمیں اپنے ملک کی تہذیب کی رنگارنگی اور اس رنگارنگی میں وحدت دونوں کو تسلیم کرنا چاہیے اور اس پر فخر کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ کعبہ کو راستہ ترکستان سے بھی جاتا ہے۔ ہم اپنے ادب کو دوسروں کے ادب کی مدد سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ حسن، صداقت، خیر ہر ادب میں ملتے ہیں اور جہاں سے یہ ملیں انھیں لے لینا چاہیے۔ کیوں کہ سارے جہان کا علم مومن کی میراث ہے۔ کالی داس، تلسی داس، غالب، ٹیگور، بھارتی اور دوسری ہندوستانی زبانوں کے بڑے شاعر صرف ہماری ہی نہیں ایک عالم کی ملکیت ہیں۔ شعر و ادب جس طرح خوابوں کے ذریعے سے حقائق کی توسیع کرتا ہے جس طرح جمالیاتی احساس بیدار کرکے ذہن کو بالیدہ کرتا ہے اور زندگی کی معنویت سے آشنا کرتا ہے اس کی اہمیت آج کے پُرآشوب دور میں جبکہ ہم سائنس اور ٹکنالوجی کو چھوڑ بھی نہں سکتے اور اسے پیرتسمہ پا بھی نہیں بنانا چاہتے۔ آج، پہلے سے زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے مشاہیر کے کارناموں کا آج کے معیاروں کی روشنی میں جائزہ لیں تاکہ ادب کے تسلسل کے ساتھ ذہن اور زندگی میں تسلسل قائم رہے، نئے، تلسی داس، غالب، ٹیگور اور بھارتی پیدا ہوسکیں اور ہماری قومی زبانیں، طاقت کے ادب اور آگہی کے ادب دونوں کو سمو کر جدید دور کے ہیجان میں اپنا راستہ نکال سکیں:

یہی تھوڑی سی مے ہے اور یہی چھوٹا سا پیمانہ

اسی سے رند رازِ گنبد مینا سمجھتے ہیں

چند روز ہوئے عربی کے ایک ممتاز عالم سے جو یورپ کے سند یافتہ ہیں، غالب صدی کی تقریبات کے متعلق تبادلۂ خیال ہورہا تھا۔ میں نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیاکہ سارے ہندوستان میں نہایت جوش و خروش اور عقیدت و محبت سے غالب کی یاد منائی جارہی ہے۔ بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح سے غالب کو ہر طرف سے خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے، اس طرح اردو کے کسی شاعر کا تو کیا ذکر ہے، ہندوستان کے کم شاعروں کو نصیب ہوا ہے۔ میں نے مشہور ہندی عالم اور کالی داس کے ماہر خصوصی بھگوتی شرن اپادھیا کے اس قول کا بھی حوالہ دیاکہ تلسی داس کے بعد اور ٹیگور سے پہلے ہندوستان میں غالب کے پائے کا کوئی شاعر نہیں ہوا ہے۔ میرے محترم نے اس پر کہا کہ ہٹائیے بھی آپ نے کس شرابی کو اتنی اہمیت دے رکھی ہے۔ میں نے بار بار ان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ حضرت ہم غالب کااحترام اس وجہ سے نہیں کرتے کہ وہ بڑے زاہد و پرہیزگار تھے۔ ہم ان کی شاعری اور نثر کی عظمت کی وجہ سے انھیں بہت بڑا فن کار مانتے ہیں۔ شیفتہ کا حوالہ بھی دیا کہ جب غالب جوئے کے الزام میں قید ہوگئے تھے تو اگرچہ ان کے بہت سے دوستوں اور عزیزوں نے ان کی طرف سے آنکھیں پھیر لی تھیں مگر شیفتہ برابر ان سے جیل میں ملنے جاتے رہے اور جب کسی نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو انھوں نے کہا کہ میرے دل میں غالب کی عزت ان کے فضل و کمال کی وجہ سے ہے، دوسری باتوں سے مجھے سروکار نہیں۔ مگر یہ بزرگ نہ ماننا تھا نہ مانے۔

اس پر مجھے پروفیسر ہمایوں کبیر کی ایک تقریر یاد آئی جس میں انھوں نے آکسفورڈ کے ایک پروفیسر کا ذکر کیاتھا۔ ہمایوں کبیر کو اپنی طالب علمی کے زمانے میں برٹرینڈرسل کی تصانیف سے گہری دل چسپی ہوگئی۔ جب ایک پروفیسر کو اس کا علم ہوا کہ ہمایوں کبیر رسل کے فلسفے کے بہت قائل ہیں تو اس نے پیشانی پر بل ڈال کر کہا کہ رسل ایک اہم فلسفی کیسے ہوسکتا ہے، اُس کا اخلاق کا تصور ہی غلط ہے۔

یہ سلسلہ بہت دور تک جاتا ہے۔ صوفی منش لوگ ان شعرا کو پسند کرتے ہیں جو تصوف کے اسرار و رموز نظم کریں۔ ایک خاص مذہب کے ماننے والے عام طور پر ان شعرا کے دل دادہ ہوتے ہیں جو اس مذہب کے عقائد کی تلقین کریں یا اس کی عظمت کے راگ گائیں۔ کسی دوسرے مذہب سے گہری عقیدت ان کے نزدیک اتنی قابل قدر چیز نہیں۔ اسی طرح ایک گروہ وہی شعر پسند کرتا ہے جن میں انقلاب یا سرخ سویرے کا ذکر ہو۔ دوسرا ایسے شعرا کو شاعر ماننے ہی پر آمادہ نہیں۔ ایک بزرگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جب تک کوئی معقول انسان نہ ہو اس کی شاعری معقول نہیں ہوسکتی۔

یہ اور ایسے ہی بہت سے خیالات اس لیے ظاہر کیے جاتے ہیں کہ ہم شعر و ادب کی اپنی مخصوص بصیرت اور اس کے اپنے رول کو اب تک تسلیم نہیں کرسکے ہیں۔ ہم اس میں کسی نہ کسی مذہبی تصور، فلسفے، سیاسی نظریے یا اخلاقی نظام سےمطابقت ڈھونڈتے ہیں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ فن کی عظمت کو ان رشتوں سے بلند ہوکر دیکھا جائے اور اپنے شعری و ادبی سرمائے کو کسی مذہبی، اخلاقی، سیاسی یا سماجی نقطۂ نظر سے پرکھنے کے بجائے جمالیاتی اور فنّی نقطۂ نظر سے اس کی قدر و قیمت متعین کی جائے۔ فن کا مقصد مذہب یا اخلاق یا سیاست یا سماج کے کسی نظریے کی تلقین نہیں بلکہ فن کو تلقین سے بیر ہے۔ ہاں فن کے نتیجے کے طور پر ہمیں جو بصیرت حاصل ہوتی ہے اس میں کوئی  اخلاقی میلان، کوئی سماجی شعور یا کوئی مذہبی یا متصوّفانہ نظریہ سبھی مل سکتے ہیں۔ مقصد کو نتیجے سے مخلوط نہیں کرنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ آگ لینے گئے تھےاور انھیں پیمبری مل گئی۔ ادب میں بھی ایک آگ کی جستجو ہوتی ہے۔ ہاں یہ جستجو حقیقی ہے اور اس میں آدمی تن من دھن کی بازی لگا دے تو آگ ڈھونڈنے والے کو پیمبری بھی مل جاتی ہے۔

اس لیے آج ہمارے لیے ضروری ہے کہ اپنی پوری ادبی تاریخ پر اور سارے ادبی سرمائے پر پھر سے نظر ڈالیں۔ ہمیں اس کام کے لیے اپنی ساری ادبی روایت پر نظر رکھنا ہوگی۔ جبلت سے عقلیت کی طرف اور جادو سے سائنس کی طرف اور سادگی سے پیچیدگی کی طرف۔ فطری حالت سے متمدن زندگی کی طرف اور ماورائیت سے ارضیت کی طرف میلان کو ذہن میں رکھنا پڑے گا۔ حالی ہمارے پہلے بڑے نقاد اور نہایت اہم شاعر ہیں۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ انھوں نے ہمارے ادبی سرمائے کے متعلق جو فیصلے صادر کیے تھے انھیں ہم بے چون و چرا تسلیم کرلیں۔ اسی طرح غزل کے متعلق ان کی رائے اور اس کی اصلاح کے متعلق ان کے مشورے بھی غور طلب ہیں۔ اقبال کی مذہبیت اور سیاست کی وجہ سے ان کی شاعری کی عظمت کے راگ گائے گئے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا کما حقہ احساس نہں ہوا۔ دوسرے مذاہب والوں نے اسی وجہ سے ان کی شاعری کو بھلا دیا۔ ترقی پسند تنقید نے اُردو ادب کو بہت کچھ دیا مگر اس نے ادب کو سیاست کے مقاصد کے تابع کرکے اور سیاست کو بھی ایک خاص نظریے سے وابستہ کرکے ادب کو محدود کردیا۔ اس نے ادبیت اور فن کے جمالیاتی پہلو کو سیاسی تبلیغ کی خاطر اکثر نظرانداز کیا۔ اسی لیے آج ہمارا سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ قدیم شاعری کو ایک تخئیلی تجربہ مان کر اس تجربے کی معنویت کو دیکھیں۔ شاعر کا تخیل جتنا بلند ہوگا اتنا ہی وہ اس کے ذریعے سے تخلیق کا اور تخلیق کے ذریعے سے ایک نئی تنظیم کا کام انجام دے سکے گا۔ تخیل کو غذا تجربے سے ملے گی۔ اس لیے انفرادی تجربہ تخلیق میں جان پیدا کرے گا۔ فن کار جتنا اپنے تجربے سے وفادار ہوگا اتنا ہی اس کی تخلیق میں آب و رنگ آئے گا۔ یہاں پر ایک مشکل منزل آئے گی۔ اسے قدم قدم پر یہ احساس ہوگا کہ مجھے یہ کہنا چاہیے اور یہ نہ کہنا چاہیے۔ لوگ یہ چاہتے ہیں اور یہ نہیں چاہتے۔ میرا احساس مجھے یہ بتاتا ہے اور دنیا وہ پسند کرتی ہے۔ اگر وہ اس معاملے میں اپنی نظر سے وفادار رہا اور اس نے اپنے جذبے، اپنے تجربے، اپنی آگہی اپنے احساس کی بھرپور ترجمانی کردی تو سمجھیے وہ قابلِ قدر فنکار ہوگیا۔ پھر یہ تخئیلی مزاج اس کے لیے زندگی میں مشکلات پیدا کرے گا۔ جتنا وہ اپنے تجربے سے وفادار ہوگا اتنا ہی وہ دنیا کے عام عمل اور ردّ عمل کے لیے نااہل ہوجائے گا۔ دنیا اس کی شخصیت میں ا یک کجی پائے گی۔ حالانکہ یہی عام زندگی کے معاملات کی کجی اس کے فن کی طاقت ہے۔ برنارڈشا نے ‘‘بشر اور فوق البشر’’ میں فن کار کے متعلق کہا ہے کہ سچا فن کار دنیا کے نزدیک بہت سے برے کاموں کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ وہ بیوی سے بے اعتنائی برت سکتا ہے ۔ بچوں کو نظرانداز کرسکتا ہے۔ وہ سماج کے قوانین توڑ سکتا ہے۔ مگر یہ سب اس لیے کہ اسے فن کے ساتھ وفادار رہنا ہے۔ ایک طرح یہ وہی شریعت اور طریقت والی بات ہے۔ اس Abnormality کا بوجھ اسے ڈھونا ہے مگر دراصل یہ ِAbnormality ایک نئی نارملٹی کی طرف قدم ہے۔ یہ استعاروں اور علامتوں کے ذریعے سے ایسے گہرے حقائق اور ایسے نئے پہلوؤں کا احساس دلاتی ہے جن کی طرف سے عام زندگی اور اس کی مصروفیتوں نے ہمیں غافل کردیا ہے۔ یہ روح کے نئے غسل کے ذریعے سے جسم کے تازہ دم ہونے کا کام ہے۔ میں یہاں شاعر یا فن کار کی ذاتی کمزوریوں کا جواز نہیں پیش کررہا ہوں۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اس کے فن سے غرض رکھنی چاہیے۔ اُس کی شخصی یا ذاتی خصوصیات کو علاحدہ کردینا چاہیے۔ فن کار ان کمزوریوں کی وجہ سے فنکار نہیں ہوتا، ان کے باوجود ہوتا ہے۔ ورنہ یہ کمزوریاں تو زندگی میں خاصی عام ہیں مگر فن کار عام نہیں ہیں۔ اس لیے فن کار کے نظامِ اخلاق اور فن کے نظام اخلاق میں فرق کرنا ضروری ہے۔میں اپنے طالب علموں کو ہر سال شروع میں دو نقادوں کا قصہ سناتا ہوں۔ ایک نے کہا۔ یہ کتاب اچھی ہے۔ مجھے پسند ہے۔ دوسرے نے کہا۔ مجھے پسند نہیں مگر کتاب اچھی ہے۔ دوسرا بہتر نقاد ہے۔

جس طرح فن کار کی شخصی اور ذاتی کمزوریوں کو فن کی خوب کے اعتراف میں خارج نہ ہونے دینا چاہیے، اسی طرح اپنے عقیدے یا مسلک کو بھی۔ شاعر نہ مفکّر ہوتا ہے نہ فلسفی۔ وہ حقیقی معنی میں دانش مند ہوتا ہے۔ یعنی اسے خیالات سے محبت ہوتی ہے۔ ایلیٹ کہتا ہے کہ دانش مندی Wisdom اور شاعری بلند ترین شاعروں کے یہاں توام ہوتی ہیں۔ کالی داس، تلسی داس، ٹیگور، اقبال کی شاعری میں جو دانش مندی ہے اس سے لطف اٹھانے کے لیے ان کے عقائد سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔ دانتے اور ملٹن کے عقائد کو ماننا ضروری نہیں۔ صرف یہ احساس کافی ہے کہ ان شاعروں نے اپنے ذاتی تجربے اور شخصی نظریے کو اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ اس میں ا یک آفاقیت آجاتی ہے جو اپنی جگہ احترام اور توجہ کی مستحق ہے۔ یعنی ہم شاعر کے ذہنی سفر میں اس کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ بڑے شاعر وہ نہیں جو زیادہ سے زیادہ فلسفہ بگھارتے ہیں یا مذہب کی تلقین کرتے ہیں یا سیاست کے اصول واضح کرتے ہیں۔ بڑے شاعر وہ ہیں جو اپنے خصوصی تجربات کے متعلق بہت کچھ کہتے ہیں اور ان خصوصی تجربات میں ایک کلّی نظر کی وجہ سے ایک خاص گہرائی یا عزت یا آفاقیت خود بہ خود آجاتی ہے۔ ایف۔ آر۔ لیوس نے غلط نہیں کہا ہے کہ آفاقیت (Universality) مخصوصیت (Particularity) کی نسبت سے ہوتی ہے۔ یوں تو زبان خود بہت مکمل طریقۂ اظہار نہیں ہے مگر شاعری کی زبان اس لیے بصیرت کے ابلاغ پر زیادہ قادر ہے کہ نثر کے مقابلے میں اس میں تضادات بھی ہوسکتے ہیں۔ گویا شاعری کی زبان بہ یک وقت زیادہ وجدانی (اور اس لیے مبہم) اور زیادہ قطعی ہوتی ہے۔ مشہور انگریزی شاعر ڈبلیو۔ بی۔ ییٹس کے باپ نے اس سے کہا کہ ایک شاعر کو صبح کو خدا میں اپنے عقیدے کا ظہا رکرنا چاہیے اور شام کو اس میں شک کرنا چاہیے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ شیکسپیئر کے عقائد کیا تھے کیونکہ اس کے بہت سے عقیدے تھے (جو اک دوسرے سے متضاد تھے۔ مذہبی عقیدہ ہو سیاسی نظریہ یا اخلاقی تصور، شاعر کے لیے یہ ایسا ہے جیسا کہ دیومالا یا پلاٹ۔ ییٹس (Yeats) کے یہاں آئرش قصوں اور روحوں کا ذکر بہت ملتا ہے۔ جب یہ روحیں اس کے اعصاب پر سوار ہونے لگیں تو اس نے کہا ٹوٹے پھوٹے بے ربط جملوں میں بدخط تحریر میں جو کچھ آجاتا تھا وہ اتنا ہیجان انگیز، اتنا گمبھیر معلوم ہوتا تھا کہ میں زندگی کا بقیہ حصہ ان منتشر جملوں کو جوڑنے اور ان کی توجیہ کرنے کے لیے صرف کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ تب ان روحوں نے متنبہ کیا ‘‘نہیں ہم تو تمھیں شاعری کے لیے استعارے دینے آئےہیں’’ مشہور امریکن نقاد کینتھ برک (Kenneth Burke) اپنی کتاب زبان اور ابلاغ Language and Communication میں کہتا ہے کہ آدمی علامت کو برتنے والی (علامت بنانے والا یا علامت کا استعمال کرنے والا) جانور ہے۔ وہ نفی کا موجد ہے۔ وہ اپنے فطری ماحول سے اپنے ہی بنائے ہوئے اوزاروں کی وجہ سے علاحدہ ہوگیا ہے۔ اسے تنظیم کا خیال متاثر کرتا ہےاور تکمیل کی آرزو اس کے لیے ایک عذاب ہے۔ Rotten with Perfection اگر ہم ان خیالات پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کی خاصی اہمیت ہے۔ علامتوں میں سوچنا اور علامتوں میں جینا، علامتوں میں مرنا انسان کا مقدر ہے۔ وہ نفی سے ہر بات شروع کرتا ہے۔ اثبات تک بھی وہ نفی کے ذریعے سے جاتا ہے۔ میز کی پہچان وہ یہ بتاتا ہے کہ یہ کرسی نہیں ہے۔ دن کی یہ کہ وہ رات نہیں ہے۔ اس نے تہذیب، سائنس، علوم، صنعت و حرفت کے بہت سے اوزاروں پر قدرت حاصل  کی ہے مگر ان اوزاروں نے اس پر حکومت کرنا شروع کردی ہے اور اس کی روح بے چین ہے۔ تنظیم اس کی فطرت ہے اور ہر تنظیم ایک نئی تخریب اور ایک نئی تعلیم کا سلسلہ ہوتی ہے۔ وہ تکمیل کی خواہش میں مرتا ہے  اور ایک ازم سے دوسرے ازم تک جاتا ہے۔ بڑے شاعروں کے یہاں آدمی کی یہ ساری خصوصیات اپنے طور پر جلوہ گر ہوتی ہیں کوئی کم کوئی زیادہ۔ میر علامتی اظہار اور اپنے فطری ماحول سے علاحدگی کے کرب کو  زیادہ ظاہر کرتے ہیں۔ فانی بھی اس خصوصیت میں ان کے شریک ہیں۔ اقبال کو تکمیل اور تنظیم کا خیال زیادہ ستاتا ہے، تمام اردو شعرامیں غالب کے یہاں یہ سب پہلو جلوہ گر ہیں۔ وہ پورے آدمی ہیں۔ ایک طرف وہ یہ کہتے ہیں :

خوئے آدم دارم آدم زادہ ام

آشکار آدم ز عصیاں می زنم

اہلِ ورع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل

پر عاصیوں کے زمرے میں میں برگزیدہ ہوں

 

دوسری طرف یہ بھی فرماتے ہیں:

دیدہ تا دل ہے یک آئینہ چراغاں کس نے

خلوتِ ناز بہ پیرایۂ محفل باندھا

بے خبر مت کہہ ہمیں بے درد خودبینی سے پوچھ

قلزمِ ذوقِ نظر میں آئینہ پایاب تھا

 

غالب کے یہاں علامتی پہلو دیکھیے۔ میں نسخۂ حمیدیہ کے اشعار سے اس لیے مثالیں دے رہا ہوں کہ متداول دیوان سبھی کی نظر میں ہے۔ لیکن نسخۂ حمیدیہ کے جواہر پاروں کو عام طور پر خزف ریزے سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ اس نے غالب کو غالب بنایا۔ اس لیے اس دور کی شاعری کو بے راہ روی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اسے قانون باغبانی صحرا کے تحت دیکھنا چاہیے جس میں کانٹوں کی پیاس بجھائی جاتی ہے اور ویرانوں میں پھول کھلائے جاتے ہیں:

ہر کفِ خاک جگر تشنۂ صد رنگِ ظہور

غنچے کے مے کدے میں مستِ قاتل ہے بہار

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

ساغرِ جلوۂ سرشار ہے ہر ذرّۂ خاک

شوقِ دیدار بلا آئینہ ساماں نکلا

شرر فرصت نگہ، سامان یک عالم چراغاں ہے

بقدر رنگ یاں گردش میں ہے پیمانہ محفل کا

دیر و حرم آئینۂ تکرار تمنا

واماندگیِ شوق تراشے ہے پناہیں

میں چشم وا کشادہ و نرگس نظر فریب

لیکن عبث کہ شبنم خورشید دیدہ ہوں

کوئی آگاہ نہیں باطن ہم دیگر سے

ہے ہر اک فرد جہاں میں ورقِ ناخواندہ

 

اب نفی کا پہلو دیکھیے:

موج خمیازۂ یک نشہ چہ اسلام چہ کفر

کجیِ یک خطِ مسطر چہ توہم چہ یقیں

کس بات پہ معذور ہے اے عجزِ تمنّا

سامانِ دُعا وحشت و تاثیرِ دعا، ہیچ

نے سبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے واسطہ

میں معرضِ مثالی میں دستِ بریدہ ہوں

 

اپنے فطری ماحول سے علاحدگی کا احساس جسے جدید دور کی اصطلاح میں (Alienation) کہہ سکتے ہیں، اس طرح ظاہر ہوتا ہے:

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

اسد خاکِ درِ مے خانہ اب سر پر اڑاتا ہوں

گئے وہ دن کہ پانی جام سے لے زانو زانو تھا

ہے سر نوشت میں رقمِ وا شکستگی

ہوں جوں خطِ شکستہ بہ ہر جا شکستہ دل

تمیزِ زشتی و نیکی میں لاکھ باتیں ہیں

بہ عکسِ آئینہ یک فردِسادہ رکھتے ہیں

نہ حیرت چشمِ ساقی کی نہ صحبت دورِ ساغر کی

مری محفل میں ساقی گردشِ افلاک باقی ہے

 

تنظیم کی خواہش اس طرح جلوہ گر ہوتی ہے:

یک قدم وحشت سے درسِ دفتر امکاں کھُلا

جادہ اجزائے دوعالم دشت کا شیرازہ تھا

شوق ہے ساماں طراز نازشِ اربابِ عجز

ذرہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا

اسد سودائے سرسبزی سے ہے تسلیم رنگیں تر

کہ کشتِ خشک اس کا ابرِ بے پردا خرام اس کا

فتادگی میں قدم استوار رکھتے ہیں

برنگِ جادہ سرِ کوئے یار رکھتے ہیں

نقشِ عبرت در نظرہا نقد عشرت در بساط

دوجہاں وسعت بہ قدر یک فضائے خندہ ہے

 

تکمیل کی خواہش اور اس کی سزا اس عنوان سے ملتی ہے:

ہر رنگ میں جلا اسد فتۂ انتظار

پروانۂ تجلّی شمعِ ظہور تھا

تماشائے گلشن تمنّائے چیدن

بہار آفرینا گنہگار ہیں ہم

نے کوچۂ رسوائی و زنجیر پریشاں

اے نالہ میں کس پردے میں آہنگ نکالوں

سر پر مرے وبالِ ہزار آرزو رہا

یارب میں کس غریب کا بختِ رمیدہ ہوں

طاقت فسانۂ باد، اندیشہ شعلہ ایجاد

اے غم ہنوز آتش، اے دل ہنوز خامی

وہ تشنۂ سرشارِ تمنا ہوں کہ جس کو

ہر ذرّہ بہ کیفیتِ ساغر نظر آوے

 

اب یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ غالب کیوں اپنے دور میں اتنے مقبول نہیں ہوئے جتنے آج ہیں۔ غالب کے دور میں ازمنۂ وسطیٰ کے عام ذہن کے مطابق فطرت ایک مستقل معجزہ ہے جسے ایک غیبی طاقت کی لمحہ بہ لمحہ مدد یا ہدایت نے چلا رکھا ہے۔ عالم طبیعی اور فطرت انسانی مستقل اور مقررہ قوانین کے پابند ہیں۔ شروع شروع میں سائنس نے ارتقا (Evolution) اور ترقی (Progress) کے ایک خطِ مستقیم کا سہارا لیا مگر اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ارتقا اور بازگشت ترقی اور ترقیِ معکوس ساتھ ساتھ چلتے ہیں نہ عالمِ طبیعی کے قوانین مستقل اور مقرر ہیں اور نہ فطرتِ انسانی  کے اسرار و رموز اور پیچ و خم کا ہمیں پورا علم ہے۔ اس لیے حقیقت کے بہت سے روپ ہوسکتے ہیں اور شعر و ادب جس حقیقت کو پیش کرتا ہے وہ اتنی اہم ہے کہ اس کو نظرانداز کرکے ہم ذہنی افلاس اور تخیّل کی کم مائیگی اور بالآخر شخصیت کی کجی تک جاسکتے ہیں۔ شعر و ادب اُس وقت عظیم ہوتا ہے جب وہ انکار اور عقیدے، سوال اور جواب، آسمان اور زمین، ماورائیت اور ارضیت۔ ملکوتیت اور شیطنت سبھی سے کام لے جب وہ خیال کے نشے کو لفظ کی مستی اور لفظ کی مستی کو آشوبِ آگہی بنا سکے۔ غالب نے سوال کیے خدا سے، دوسروں سے اور اپنے سے۔ ان کے کلام میں کیوں، کیا اور کیسے بہت ملتے ہیں۔ ایک بالغ نظر نقاد نے کہا ہے کہ سوال کرنا خود ایک جواب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس لیے میرے نزدیک غالب کی تشکیک ان کی ذہنی جستجو، اور اس جستجو کی توانائی کو ظاہر کرتی ہے۔ کیا ان سوالوں میں آپ کو ایک جواب نہیں ملتا:

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

شکن زلفِ عنبریں کیوں ہے

نگہ چشم سُرمہ سا کیا ہے

سبزۂ و گُل کہاں سے آئے ہیں

ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا

نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

کس بات پہ مغرور ہے اے عجز تمنّا

سامانِ دعا وحشت  و تاثر دعا، ہیچ

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں

کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب

سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

 

تشکیک، انکار، اختلاف کا مقصد جامد عقیدے کو متزلزل کرنا اور نئی بصیرت اور نئی آگہی بخشنا ہے۔ یہ آگہی صرف عقل سے عبارت نہیں مگر عقل اور وجدان دونوں کو تخلیقی تخیل (Creative Imagination) کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اس تخلیقی تخیل میں صرف جذبے کی مستی یا صرف عقلی تجزیے سے کام نہیں لیا جاتا بلکہ جذبے کی تھرتھراہٹ اور عقل کی عطا کی ہوئی بصیرت کو اس نظریے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو دانش وری کا حق ادا کرتی ہے۔ غالب صحیح معنی میں شاعری کو دانش وری (Poetry of Intellect) بنا دیتے ہیں۔ انھیں معنوں میں میں نے عرصہ ہوا، کہا تھا کہ غالب نے اردو شاعری کو ذہن دیا۔ اس ذہن کی بدولت تخیل حیات و کائنات کی سیر کرنے کے بعد جب دنیا کو دیکھتا ہے تو اسے وہ اتنی حسین نظر آتی ہے کہ اس پر بہت سی جنتیں قربان کی جاسکیں۔ اس کومیں ارضیت کی روایت کہتا ہوں۔ ارضیت کا احساس تو اردو کے ہر بڑے شاعر کے یہاں ملتا ہے اور میر نے انسان کی عظمت اور نظیر نے اس کے ہزار شیوہ انداز کا ذکر بھی کیا ہے اور اقبال تو روحِ ارضی کے آدم کے استقبال کا ترانہ بھی چھیڑتے ہیں۔ مگر ان سب کے یہاں انسان اس اخلاقی مشن کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے جو خدا کی کائنات کو سمجھنے اور برتنے کے لیے ہے۔ مگر غالب کے یہاں یہ ارضیت صرف اس دنیا اور اس کے بسنے والوں کی عام خوشیوں اور محرومیوں، عام تشنگی و سرشاری،  روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کی جذباتی اور ذہنی قوت اور شوق، تمنّا، آرزو اور جستجو کی دنیا کے لامحدود امکانات اور اَن گنت عجائبات کی وجہ سے اہم ہے ورنہ وہ خضر سے کیوں کہتے:

وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر

نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لیے

یاہزاروں حوروں پر ایک حورِ ارضی کو کیوں ترجیح دیتے:

سیہ مستیِ ابرِ باراں کجا

خزاں چوں نباشد بہاراں کجا

چہ منّت نہد ناشنا سا نگار

چہ لذّت دہد وصل بے انتظار

نظر بازی و ذوقِ دیدار کو

بہ فردوس روزن بہ دیوار کو

 

اب یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی کہ غالب کے یہاں اگرچہ عشق کے سبھی رنگ ملتے ہیں مگر کیوں روح کی مستی کی خاطر جسم کی پکار پر بھی کان دھرتے ہیں اور کیوں ان کے یہاں جسم کی ایک تطہیر ہے جو بالآخر اعصابی توانائی اور ذہنی صحت کے لیے کام آتی ہے۔ ان کے اعصاب پر عورت سوار نہیں ہے۔ وہ جانتےہیں کہ لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کرنہیں سکتی۔ ان کے یہاں یہ اشعار معنی خیز ہیں:

نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اُس کی ہیں

تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہوگئیں

اسد بندِ قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ

اگر وا ہو تو دکھلا دوں کہ اک عالم گلستاں ہے

اسد اٹھنا قیامت قامتوں کا وقتِ آرائش

لباسِ نظم میں بالیدنِ مضمونِ عالی ہے

نہ کہہ کر طاقتِ رسوائیِ وصال نہیں

اگر یہی عَرَقِ فتنہ ہے مکرّر کھینچ

لڑا دے گر وہ بزمِ مے کشی میں قہر و شفقت کو

بھرے پیمانۂ صد زندگانی ایک جام اس کا

 

غالب کی شاعری ایک بالغ ذہن کی شاعری ہے جو تخیل کی مدد سے زندگی کے ان گوشوں کو دیکھ لیتا ہے جو عام نظروں سے پوشیدہ  تھے۔ یہی تخلیقی تخیل انھیں ہر سطحی رومانیت اور سستے نشے کی تہی مائیگی سے آشنا کرادیتا ہے:

پوچھ مت رسوائی اندازِ استثنائے حسن

دست مرہونِ حنا رخسار رہنِ غازہ تھا

کوہ کن گُرسنہ مزدورِ طرب گاہِ رقیب

بے ستوں آئینۂ خواب گرانِ شیریں

 

یہ فلسفوں اور نظریوں کی رعونت، عنفوانِ شباب کے سنہرے دھندلکے  اور جذباتی ہیجان اور ماورائیت کے طلسمی غبار سے ہمیں نکال کر ایک پختگی (Maturity) اور دیدہ ور سنجیدگی تک پہنچا دیتا ہے جس کی بدولت زندگی نہ صرف عجائبات و تضادات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے بلکہ یہ عجائبات اس قابل ہیں کہ ان کے تماشے سے نظر کو شگفتگی اور شوخی عطا کی جائے۔ نظر کی یہ شوخی پھر سو د و زیاں نہیں دیکھتی۔ لومڑی کی طرح انگور کے خوشوں تک نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے انھیں کھٹّا نہیں کہتی بلکہ دل جمعی کے ساتھ یہ اعلان کرسکتی ہے:

نہیں نگار کو الفت نہ ہو نگار تو ہے

روانیِ روش و مستیِ ادا کہیے

نہیں بہار کو فرصت نہ ہو، بہار تو ہے

طراوتِ چمن و خوبیِ ہوا کہیے

 

یعنی حسن بہ ہر حال حسن ہے خواہ مہربان ہو یا نہ ہو۔ دریا کی روانی بہرحال دل کش ہے، خواہ آپ اس سے بجلی پیدا کرسکیں یا نہیں۔ آدمی بہرحال آدمی ہے اس لیے لائق احترام ہے اور لائقِ اعتراف۔ رنگوں کے اختلاف پر نہیں جانا چاہیے۔ ان میں بہار کی کارفرمائی دیکھنی چاہیے۔ نہ جلّاد سے لڑنا چاہیے نہ واعظ سے  جھگڑنا۔ زندگی کی کسی خاص منزل پر زور دینے سے زیادہ زندگی کے سفر کا حق ادا کرنا ضروری ہے۔ فرد کو اپنی شخصیت کی تربیت کے لیے روشناسِ خلق بھی ہونا پڑے گا اور تنہا بھی رہنا پڑے گا۔ آدمی قنوطی بھی ہوسکتا ہے رجائی بھی۔ مومن بھی اور کافر بھی اور قنوطیت اور رجائیت، ایمان اور کفر دونوں میں ایک اندرونی تعلق ہے۔ فن نہ نشہ ہے نہ نجات۔ یہ لفظ کے ذریعے سے معنی کی تلاش اور معنی کی توسیع کے ذریعے سے ذہن کی سیرابی کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ وہ کافر ماجرائی ہے جو یونانی دیوتا کی طرح زخم بھی دیتی ہے اور کمان بھی اور زخم اور کمان میں تعلق کو بھی ظاہر کردیتی ہے۔ یہ سروِبرگ ادراک معنی کے علاوہ تماشائے نیرنگ صورت کو بھی ایک قدر مان لیتی ہے اور نفس قیس کو چشم و چراغ صحرا سمجھتی ہے۔ کیا ہوا اگر وہ شمعِ سیہ خانۂ لیلیٰ نہیں۔ غالب اور شیکسپیئر کی بڑائی اسی میں ہے کہ ان پر کوئی لیبل نہیں لگایا جاسکتا سوائے نظر کے، اور صاحبِ نظر اپنے پیش روؤں سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ روایت پرست نہیں ہوتا۔ روایت سے اس طرح کام لیتا ہے کہ پرانے بادل نئی بجلی پیدا کردیتے ہیں۔ اسی لیے تو کہتا ہے:

بامن میا ویز اے پدر فرزند آدم را نگر

ہر کس کہ شد صاحب نظر دین بزرگاں خوش نہ کرد

جس طرح غالب کی شاعری ذہن کی شوخی کو ظاہر کرتی ہے، اسی طرح غالب کی نثر شخصیت کی شوخی کو۔ جب ذہن کی شوخی کو عمر اور حالات نے ماند کردیا تو شخصیت کی شوخی نے خطوں کا نگارخانہ سجایا۔ ایک عرصہ تک آدمی محشرِ خیال رہا اور خلوت انجمن بنی رہی۔ مگر پھر تنہائی کے عذاب نے خطوں کے ذریعے سے ایک نئی انجمن کی طرح ڈالی۔ ان کی نثر پر اظہار خیال کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔ مجھے صرف یہی عرض کرنا ہے کہ دونوں میں ایک گہرا معنوی ربطہ ہے۔ فضا کی سیر ضروری تھی مگر پھر تخیل کی دولت نے اپنے در و بام اور اپنے گلی کوچوں سے ایک لگن پیدا کی۔ جو خلاباز چاندکے گرد چکر لگا رہے تھے وہ بھی اس بلندی سے زمین کو دیکھ کر اس پر نئے سرے سے عاشق ہوگئے۔

پروفیسر مجیب نے غالب کے اردو کلام کے انتخاب کے دیباچے میں درست کہا ہے ‘‘شاعر کا منصب  یہ ہوتا ہے کہ انسان کی نظر میں وہ قوت پیدا کرے جس سے وہ  اپنے آپ کو اور اپنی دنیا کو ہر پہلو سے دیکھ سکے۔ غالب نے اس منصب کا حق ادا کیا۔ شوق کو جو انسانیت کا جوہر ہے، عالم وجود کی سیر کرنا سکھایا اور اسے ہمت دلائی کہ مسکرا کر یا خفا ہوکر زندگی کی ایسی تمام شرطوں کو نامنظور کردے جن سے اس کی آزادی محدود ہوتی ہے یا اس کے رتبۂ انسانی میں کمی پیدا ہوتی ہے۔ اسی کو میں شوخیِ اندیشہ کہتا ہوں۔ یہ سدابہار ہے اور سب کے لیے ہے۔ یہ غالب کی اور اردو کی ہندوستان کو دین ہے۔ اس شوخیِ اندیشہ کی تربیت جدید ہندوستان کا ایک مقدس فریضہ ہے جس سے ہم سب کو خواہ وہ اردو بولنے والے ہوں یا کسی اور ہندوستانی زبان کے بولنے والے، کسی حال میں غافل نہیں رہنا چاہیے۔

ŸŸŸ